Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

مذنہ جو اپنے کمرے میں سو رہی تھیں وہ بھی شور و غل سن کر وہاں پہنچ گئی تھیں اور ناسمجھ انداز میں طغرل کی طرف دیکھ رہی تھیں جو کوٹ سوٹ میں شوز سمیت ان کے سامنے شرا بور کھڑا تھا۔
”پھوپو جان! آپ نے میرے آنے کی آہٹ سنی تھی؟“ وہ سنجیدہ انداز میں ان سے مخاطب ہوا تھا۔
”نہیں  میں نے تو نہیں سنی  اتنی گرج چمک میں کون سنے گا؟“ وہ اس کی بات پر اتنا بوکھلائیں کہ خود ہی اپنے الزام کی نفی کر بیٹھی تھیں ان کی مدد کو آگے بڑھتی ہوئیں صباحت بولیں۔

”آپ کے واپس آنے کا ٹائم تو سب کو ہی معلوم ہے۔“
”آج تو میں بارش کی وجہ سے آفس ٹائم سے پہلے لوٹ آیا ہوں۔“ اس کی بات پر وہ بھونچکاسی رہ گئی تھیں۔
”مجھے بے حد معذرت کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے  آپ لوگ نہ جانے کیوں پارس کے خلاف ہو گئے ہیں  ابھی پھوپو جان آپ نے کہا یہ میرے قدموں کی آہٹ سن کر چھت پر آئی ہے حالانکہ ابھی آپ نے خود اعتراف کیا اس طوفانی بارش میں قدموں کی آہٹ کوئی نہیں سن سکتا تھا۔

آنٹی! آپ کا خیال ہے پارس میرے آفس سے واپسی کے ٹائم سے واقف ہے اس لئے اس نے یہ وقت چوز کیا  یہ سب ڈرامہ کرنے کیلئے…“ وہ اس وقت وہاں بنے چھجے کے نیچے تھے جو بارش سے محفوظ تھا۔
”میں حلفیہ کہتا ہوں ایسا کچھ نہیں ہے یہ محض اتفاق ہے میں آفس سے آکر کمرے میں جا رہا تھا جب اتفاقیہ میری نگاہ اس پر پڑی اور مجھے محسوس ہوا یہ روتے ہوئے چھت پر جا رہی ہے  گھر میں جو کل سے ٹینشن چل رہی ہے وہ خیال مجھے آیا اور میں فوراً ہی یہاں آیا تو دیکھا یہ محترمہ باؤنڈری وال پر چڑھنے کی کوشش کر رہی تھیں۔

”سن لیا تم لوگوں نے  ٹھنڈک پڑ گئی تمہارے کلیجوں میں یا ابھی بھی کوئی حسرت باقی ہے؟“ دادی جان نے طنزاً کہا۔
”کوئی کچھ بھی کہے اماں جان! ایک بار جس سے اعتماد اٹھ جائے  وہ لاکھ صفائیاں دینے سے بھی واپس نہیں آتا ہے۔“ صباحت ترچھی نگاہوں سے طغرل کو دیکھتے ہوئے گویا ہوئیں۔
”مائنڈ اٹ آنٹی! میں نے صفائی پیش نہیں کی اور نہ ہی میری عادت ہے صفائیاں دینے کی۔

کل جو کچھ آپ نے کہا وہ میں اس لئے چپ چاپ سنتا رہا کہ مجھے انکل کی عزت کا خیال ہے آپ سمجھ رہی ہیں جو آپ نے دیکھا سب ویسا ہی تھا تو یہ آپ کی بھول ہے۔ پارس کل بھی شبنم کے قطروں کی طرح پاکیزہ تھی اور آج بھی ان برستی بوندوں کی طرح پاکیزہ ہے۔“ وہ کہہ کر وہاں سے چلا گیا۔
”اماں جان! یہ کیا ہو رہا ہے؟ کیا یہ سب دیکھنے کیلئے ہم پاکستان آئے تھے؟ غیروں میں رہتے ہوئے برسوں گزر گئے اور ہم پر کسی نے انگلی نہیں اٹھائی اور اپنوں میں آئے ابھی زیادہ عرصہ بھی نہیں گزرا اور یہاں میرے بچے کو اس طرح رسوا کیا جا رہا ہے  اس کی بے عزتی کی جا رہی ہے۔

“ مذنہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تھا۔
”بھابی جان! آپ دل خراب مت کریں۔“ آصفہ نے آگے بڑھ کر چاپلوسی سے کہا تو عامرہ اور صباحت بھی آگے بڑھ آئی۔
”ہم اپنے بچے کو کیوں رسوا کرنے لگے بھلا  وہ ہمارا خون ہے۔“
”مجھے تو اللہ نے بیٹا دیا نہیں ہے  طغرل کو ہی میں اپنا بیٹا سمجھتی ہوں بھابی! آپ بے فکر رہیں  ابھی طغرل غصے میں ہے  ان کا موڈ درست ہو جائے گا تو میں خود ان سے معافی مانگوں گی۔

“ صباحت نے ان کے ہاتھ تھام کر کہا۔
”مذنہ کا موڈ آف ہی رہا  وہ ان کی باتوں کو نظر انداز کرتی ہوئیں اماں اور پری کے پیچھے چلی گئی تھیں۔
”چل گیا بیٹے کے ساتھ ساتھ ماں پر بھی جادو  دیکھا بھابی کے تیور کس طرح آنکھیں بند کرکے بات کی ہے ہم سے۔“
”جب اماں ہی ہمارا ساتھ نہیں دے رہیں تو کون دے گا عامرہ!“

   1
0 Comments